طَلسِم ہوشرُبا


Remember in December

30/12/2010 23:00

دسمبر مجھ سے بولا تھا

اب کے جب میں ‌آؤگا

تجھے پھر سے پکاروں گا

اسے میں‌ ساتھ لاؤں گا

جو تجھ کو بھول بیٹھا ہے

کہ جس کے ہجر کا لاوا

تیرا تن من جلاتا ہے

کہ جس کی یاد کے جھیلوں میں‌

اکثر ڈوب جاتے ہو

کہ جس کے واسطے بیٹھے

یہاں تم گیت گاتے ہو

 

دسمبر مجھ سے بولا تھا

سنو تم بھول نہ جانا

جو یادیں اس نے سونپی تھیں

جو لمحے اس نے بخشے تھے

چاہے یہ زخم سارے

روح کا ناسور بن جائے

انہیں بھرنے نہیں ‌دینا

انہیں‌ مرنے نہیں‌ دینا

کہ ان زخموں پہ مرہم

ایک دن اس نے رکھنا ہے

 

دسمبر آگیا لیکن

دسمبر وہ نہیں‌ لایا

کہ جس نے مجھ سے بولا تھا

اسے وہ ساتھ لائے گا

مجھے پھر سے پکارے گا

 

دسمبر! غور سے سن لو

اسے بھی تم بتا دینا

یہ سانسیں مچلی بیٹھی ہیں

اب رخصت پہ جانے کو

یہ آنکھیں‌ بھی برستی ہں

اسے واپس بلانے کو

مگر یہ جانتے ہیں ہم

ہمیں وہ بھول بیٹھا ہے

 

دسمبر آئے جو اب وہ

تو اتنا یاد رکھ لینا

دسمبر اور ہی تھا وہ

کہ جس نے مجھ سے بولا تھا

مجھے امیدیں بخشی تھیں‌

مجھے جینا سیکھایا تھا

بہت معصوم تھے ہم تو

جو اتنا بھی نہیں سمجھے

دسمبر تو دسمبر ہے

سبھی کو رلاتا ہے

ھمیشہ دیر کرتا ہے

صنم کے طور رکھا ہے

صدا آخر میں‌ آتا ہے

دسمبر اس سے کہہ دینا

مجھے کتنا بھی تڑپا لے

کہ تجھ سے ہار مانی ہے

اب ہم نے یہ ہی ٹھانی ہے

یوں‌اس سے دور جانا ہے

کبھی واپس نہ آنا ہے

 

چلو چھوڑو اب جانے دو

دسمبر کچھ بھی نہ کہنا

کوئی شکوہ نہٰں ‌کرنا

کہ جس سے یہ گماہ گزرے

اسے ہم یاد کرتے ہیں

اسی کی راہ تکتے ہیں‌

کہ اپنی زندگانی کا

اس ساری کہانی کا

یہ منظر آخری ہوگا

 

دسمبر آخری ہوگا

دسمبر آخری ہورگا

 

 

 

 

دسمبر کے مہینے کا
وہ شاید آخری دن تھا

برس گزرے کئی
میں ‌نے محبت لفظ لکھاتھا

کوئی کاغذ کے ٹکڑے پہ
اچانک یاد آیا ہے

کسی سے بات کرنی تھی
اسے کہنا تھا جانِ جاں

مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں‌ کہہ نہیں‌ پایا

وہ کاغذ آج تک
لپٹاپڑا ہے دھول میں لیکن

کسی کو دے نہیں‌ پایا
دوبارہ چاہ کر بھی میں‌
محبت کر نہیں پایا

 

 

 

 

دسمبر مجھے راس آتا نہیں

کئی سال گذرے
کئی سال بیتے
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جاں میں سانسوں کی پرتیں الٹتے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں

مگر میں ہر اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کے
اب تک وہی جستجو کا سفر کر رہا ہوں

گذرتا ہوا سال جیسے بھی گذرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
میرے ملنے والو
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے تو
تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں
اک دسمبر مجھے راس آتا نہیں

 

 

 

 

 

 

 

دسمبر جب بھی آتا ہے
۔۔وہ پگلی
پھر سے بیتے موسموں کی تلخیوں کو یاد کرتی ہے
کہ
جس میں اسنے لکھا تھا میں لوٹ آونگا
دسمبر میں
نے کپڑے بناتی ہے وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اک دن کو
وہ گن گن کر بتاتی ہے
جونہی پندرہ گزرتی ہے
وہ کچھ کچھ ٹوٹ جاتی ہےمگر پھر بھی
۔
۔
۔
پرانی البموں کو کھول کر
ماضی بلاتی ہے

نہیں معلوم یہ اسکو

کہ بیتے وقت کی خوشیاں
بہت تکلیف دیتی ہیں
محض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کو جلاتی ہیں
ہونہی
دن بیت جاتے ہیں

دسمبر لوٹ جاتا ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

0001-jpg   0003-jpg   0004-jpg   0005-jpg

 

 

 

—————

Back